اس کہانی کا مرکزی کردار چندر پرکاش ہے جو کہ بے اے پاس تھا تعلیم مکمل ہونے کے بعد اسے اپنے والد کے ذریعے اچھی نوکری ملنے کی امید تھی مگر والد کی اچانک موت سے پرکاش کی امید ٹوٹ گئی اور اسے ٹھاکر صاحب کے بیٹے کو ٹیوشن پڑھانے کی نوکری کرنی پڑیپرکاش اور اس کی بیوی چمپا دونوں ہی اس نوکری سے خوش نہیں تھے لیکن ٹھاکر صاحب نے انہیں اپنے گھر کے ساتھ ایک اچھا سا گھر رہنے کے لئے دیا تھا اسی لئے وہ تھوڑے مطمئن تھے کہ نوکری کے ساتھ انہیں رہنے کے لئے گھر بھی مل گیاٹھاکر اور ٹھکرائن دونوں پرکاش کی بہت عزت کرتے تھے اور اسے اپنے بیٹے کی طرح سمجھتے تھے ٹھاکر صاحب کا بیٹا ویراندر پرکاش ہی کی عمر کا تھ
پرکاش اور اس کی بیوی چمپا دونوں ہی اس نوکری سے خوش نہیں تھے لیکن ٹھاکر صاحب نے انہیں اپنے گھر کے ساتھ ایک اچھا سا گھر رہنے کے لئے دیا تھا اسی لئے وہ تھوڑے مطمئن تھے کہ نوکری کے ساتھ انہیں رہنے کے لئے گھر بھی مل گیاٹھاکر اور ٹھکرائن دونوں پرکاش کی بہت عزت کرتے تھے اور اسے اپنے بیٹے کی طرح سمجھتے تھے ٹھاکر صاحب کا بیٹا ویراندر پرکاش ہی کی عمر کا تھا پر کند ذہن ہونے کی وجہ سے اب تک نویں جماعت میں پڑھتا تھا
ٹھاکر اور ٹھکرائن دونوں پرکاش کی بہت عزت کرتے تھے اور اسے اپنے بیٹے کی طرح سمجھتے تھے ٹھاکر صاحب کا بیٹا ویراندر پرکاش ہی کی عمر کا تھا پر کند ذہن ہونے کی وجہ سے اب تک نویں جماعت میں پڑھتا تھا
ایک روز ٹھکرائن نے پرکاش سے کہا بیٹا سوچتی ہوں ویرو کی شادی کر دوں اس کی عمر ہوگئی ہے لڑکا ہے کہیں بہک نہ جائے ایک اچھا رشتہ آیا ہے تم کیا کہتے ہو تو پرکاش نے کہا کہ ویراندر سے پوچھ لیں اور جیسا آپ مناسب سمجھیں تو ٹھکرائن نے کہا پر بیٹا شادی کی ساری ذمہ داری تمھیں سنبھالنی ہوگی پرکاش نے انہیں تسلی دی کے وہ سب سنبھال لے گا رشتہ پکا ہوگیا اور شادی کی تیاریاں شروع ہوگئیں
ٹھاکر صاحب کو پرکاش پہ بہت بھروسہ تھا اسی لئے انہوں نے شادی کی ساری ذمہ داری پرکاش کو دی تھی پرکاش سارا دن تیاریوں میں مصروف رہتا اور حساب کتاب میں لگا رہتا دس بارہ ہزار روپے خرچ کرنے کا اختیار کوئی چھوٹی بات نہیں تھی پرکاش چاہتا تو دو چار سو روپے آسانی سے اڑا سکتا تھا پر وہ ایسا ہرگز نہیں تھا کہ جنہوں نے اس پر اتنا بھروسہ کیا انہیں دھوکہ دے پر جس دن پرکاش نے زیورات خریدے اس کا دل عجیب ہوگیا
اس نے گھر آکر اپنی بیوی سے کہا ہم یہاں روٹیوں کے محتاج ہیں اور دنیا میں لوگ ہزاروں لاکھوں روپے کے زیور بنواتے ہیں ٹھاکر صاحب نے بہو کے لئے پانچ ہزار کے زیور بنوائے ہیں ایسے زیور میں نے آج تک نہیں دیکھے مزے میں تو یہ لوگ رہتے ہیں جن کے باپ دادا چھوڑ گئے ہیں چمپا نے کہا ہماری گزر بسر تو ہو رہی ہے نہ یہی بہت ہے پرکاش بار بار زیور کا ذکر کرتا رہا تو چمپا نے کہا کہ وہ اب زیور کی بات نہ کرے
رات کے بارہ بج گئے پرکاش کو نیند نہ آئی جب آنکھ بند کرتا اس کی آنکھوں کے سامنے وہ زیور آجاتے وہ اچانک اٹھا اور اپنی چھت سے آہستہ سے ٹھاکر صاحب کی چھت پر اتر گیا گھر میں بلکل سناٹا تھا اس نے زیور کا ڈبہ چرا لیا صبح چمپا نے اسے جگا کر کہا سنو ٹھاکر صاحب کے گھر چوری ہوئی ہے چور زیور کا ڈبہ لے گئے ہیں جاکر انہیں تسلی دو
پرکاش ٹھاکر صاحب کے گھر پہنچا تو ٹھکرائن بہت رو رہی تھی پرکاش نے کہا بڑا غضب ہوگیا ماتا جی مجھے چمپا نے ابھی بتایا ٹھاکر صاحب سر پکڑ کر بولے دروازہ نہیں کھلا کوئی تالا نہیں ٹوٹا آخر چور آیا کدھر سے پرکاش نے کہا مجھے تو کسی نوکر کی حرکت لگتی ہے تو ٹھکرائن نے کہا کہ ان کے نوکر پرانے اور وفا دار ہیں ہزاروں روپے پڑے رہتے ہیں پر نوکر کبھی ہاتھ نہیں لگاتے
ٹھاکر صاحب نے کہا کہ انسان کی نیت بدلتے دیر نہیں لگتی میں پولیس کو بلاتا ہوں وہی ان سے پوچھے گی پولیس کے نام سے پرکاش ڈر گیا کہ ایسا نہ ہو اس کے گھر کی بھی تلاشی ہو اس نے کہا کہ پولیس کو بتانا بے کار ہے میں ہی ان سے پوچھتا ہوں کہ کس کی حرکت ہے جس پر ٹھکرائن پھر بولی کے نوکر ایسا نہیں کرسکتے کوئی باہر ہی سے آیا تھا
ٹھاکر صاحب نے پرکاش سے کہا کہ اپنی چھت دیکھو کوئی وہاں سے تو نہیں آیا پرکاش ڈر گیا اور بولا کہ میں تو دس بجے دروازہ بند کر لیتا ہوں پر کوئی پہلے سے چھپ گیا ہو تو الگ بات ہے رات میں دیوار سے پرکاش کے پاؤں پر چونا لگ گیا تھا جس کا نشان چھت پر موجود تھا اور ویسا ہی نشان ٹھاکر صاحب کی چھت پر بھی تھا اب تو انہیں یقین ہوگیا کہ چور پرکاش ہی کے گھر سے آیا تھا
پرکاش نے کہا کہ چوری اس کی غفلت کی وجہ سے ہوئی ہے اس کا دروازہ دن بھر کھلا رہتا ہے چور کسی وقت آکر چھپ گیا ہوگا اور اب چور نے راستہ دیکھ لیا ہے پھر دوبارہ بھی آسکتا ہے اس لئے وہ یہ گھر چھوڑ رہا ہے اور ٹھاکر صاحب کے منع کرنے کے باوجود بھی اس نے اسی دن گھر چھوڑ دیا کیوں کہ اب اسے وہاں رہنے میں خطرہ لگ رہا تھا جب تک شادی کی دھوم دھام رہی وہ سارا دن اکثر ٹھاکر صاحب کے گھر ہی گزارتے تھے
پرکاش کے سارے صندوق اور الماری کی چابیاں چمپا کے پاس تھیں پر اب ایک ایسا صندوق بھی تھا جس کی چابی چمپا کے پاس نہیں تھی اس نے پرکاش سے اس صندوق کے بارے میں پوچھا تو اس نے یہ کہہ کر چمپا کو ٹال دیا کہ اس میں پرانی کتابیں ہیں پرکاش روز صندوق کھول کر دیکھتا پر جیسے ہی چمپا آتی تو بند کر دیتا چمپا کو کچھ شک سا ہونے لگا
ایک دن ایک پرانی چابیاں بیچنے والے سے چمپا نے ایک پرانی چابی خرید کر صندوق کھولا تو اس میں زیور دیکھ کر پریشان ہوگئی اسے شک ہوا کہ کہیں یہ ٹھاکر صاحب کے زیور تو نہیں کیوں کہ سب وہی چیزیں تھیں جس کا پرکاش نے اس کے سامنے ذکر کیا تھا اس کا سر شرم سے جھک گیا اس نے صندوق بند کر دیا اور سوچنے لگی کہ اس کے شوہر کا ضمیر اتنا کم زور کیسے ہوگیا چمپا اب اداس رہنے لگی اور دونوں میاں بیوی میں اب اکثر جھگڑے رہنے لگے
کئی مہینے گزر گئے شہر کے ایک بینک میں اسسٹنٹ منیجر کی جگہ خالی ہوئی پرکاش نے اکاؤنٹنٹ کا امتحان پاس کیا ہوا تھا لیکن اس نوکری کی شرط تھی کے ضمانت کے پیسے جمع کرانے تھے ٹھاکر صاحب نے پرکاش کو کہا کہ تم درخواست کیوں نہیں دیتے تو پرکاش نے کہا ضمانت کے دس ہزار روپے دینے ہیں میرے پاس پیسے کہاں ہیں تو ٹھاکر صاحب نے کہا تم درخواست دو ضمانت کے پیسے میں دوں گا پرکاش خوش ہوگیا کہ اب وہ نوکری اسے ہی ملے گی اسے ٹھاکر صاحب کی صاف دلی دیکھ کر صدمہ بھی ہورہا تھا
وہ گھر پہنچا اور خوشی خوشی چمپا کو نوکری کا بتایا تو اس نے منہ پھیر کر کہا کہ تم نے ٹھاکر صاحب سے ضمانت کیوں دلوائی آدمی کی نیت تو ہمیشہ ایک سی نہیں رہتی پرکاش ڈر گیا اور سوچا کہ چمپا کو زیور کا تو نہیں پتہ چل گیا اس نے کہا کہ تم نے یہ کیوں بولا کہ نیت ہمیشہ ایک سی نہیں رہتی تو چمپا نے کہا ٹھاکر صاحب کے ہاں شادی میں تم اپنی نیت ٹھیک نہ رکھ سکے خود ہی وہ گھر چھوڑ دیا
ٹھاکر صاحب ہمیں کرایہ دیتے ہیں ہر چیز بھیجتے ہیں ہماری دکھ بیماری میں ہمارا خیال کرتے ہیں ہمیں اتنی عزت دیتے ہیں اور نوکری کی ضمانت تو کوئی رشتے دار بھی نہ دیتا اتنا احسان کرنے والے کے لئے تو جان بھی قربان کرنے کو تیار رہنا چاہیئے پرکاش کا ضمیر اسے ملامت کرنے لگا اسے وہ صندوق بوجھ لگنے لگا
پرکاش نے نوکری کی خوشی میں اپنے گھر دعوت رکھی ٹھاکر صاحب کے گھر کے سب لوگ آئے کھانا کھا کر ٹھاکر صاحب جانے لگے تو پرکاش نے انہیں روک لیا کہ وہ سب رات اس کے گھر ہی رک جائیں رات میں سب سوگئے تو پرکاش خاموشی سے ٹھاکر صاحب کے گھر گیا اور زیور کا ڈبہ ان کے پلنگ کے نیچے رکھ آیا اسے لگا کہ جیسے کوئی بوجھ اتر گیا ہو
صبح ٹھاکر صاحب اپنے گھر چلے گئے پرکاش شام کا انتظار کرنے لگاشام کو وہ ویراندر کو پڑھانے گیا تو ویراندر نے اسے کہا کہ آپ کی دعوت بہت مبارک تھی زیور جو چوری ہوئے تھے مل گئے ہیں اس میں سے کچھ بھی غائب نہیں ہے گھر میں سب بہت خوش تھے ٹھاکر صاحب نے پرکاش سے کہا کہ آج اس خوشی میں ہمارے گھر دعوت ہوگی
پرکاش نے گھر آکر چمپا کو یہ خوش خبری سنائی تو وہ رونے لگی جیسے اس کا بچھڑا ہوا شوہر بہت مدت کے بعد گھر آگیا ہو