پہلا درویش اپنی کہانی سنا چکا تو دوسرے درویش نے باقی درویشوں کو مخاطب کر کے اپنی کہانی شروع کی اس نے کہا کہ وہ ملک فارس کا بادشاہ زادہ ہے مختلف امور کے ماہر اور قابل لوگ فارس میں بستے ہیں اور اس کی تربیت بھی اس کے والد نے اس طرح سے کی ہے کہ وہ چودہ برس کی عمر میں ان تمام علوم کا ماہر ہو چکا تھا جو بادشاہ بننے کے لئے ضروری ہوتے ہیں
اس کا ایک شوق تھا کہ وہ نصیحت حاصل کرنے کے لئے قابل لوگوں سے بادشاہوں اور نامور لوگوں کے قصے سنا کرتا تھا ایک روز ایک عقلمند ساتھی نے حاتم کی کہانی سنائی کہ حاتم کے وقت میں عرب کا ایک بادشاہ نوفل حاتم کی شہرت کی وجہ سے اس کا دشمن ہوگیا ایک روز اس نے حاتم پر حملے کے لئے لشکر تیار کیا حاتم کو جب یہ خبر ہوئی تو اس نے سوچا کہ میں اگر حملے کا جواب دوں گا تو بہت خون خرابہ ہوگا معصوم لوگ مارے جائیں گے اور سارا گناہ مجھ پر ہوگا یہ سوچ کر وہ سب کچھ چھوڑ کر وہاں سے نکل گیا اور ایک غار میں جا کے چھپ گیا
نوفل کو جب حاتم کے غائب ہونے کی خبر ہوئی تو وہ غصے میں آگیا اس نے حاتم کے مال و دولت پر قبضہ کر لیا اور یہ اعلان کروادیا کہ جو کوئی حاتم کو تلاش کرے گا اسے پانچ سو اشرفیاں انعام میں دی جائیں گی لوگ لالچ میں حاتم کو تلاش کرنے لگے
ایک روز ایک بوڑھا اور اس کے بیوی بچے لکڑیاں کاٹنے اس غار کے پاس پہنچے جہاں حاتم چھپا تھا لکڑیاں چنتے ہوئے بڑھیا نے کہا کاش ہمیں حاتم مل جائے تو اس کو نوفل کے حوالے کرکے انعام مل جائے تو ہماری زندگی آسان ہوجائے بوڑھا اس بات پر ناراض ہوا اور اپنی بیوی کو ڈانٹنے لگا
حاتم غار میں ان دونوں کی باتیں سن رہا تھا اس نے سوچا کیا کرنا ایسی زندگی کا جو کسی غریب کے کام نہ آسکے یہ سوچ کر وہ غار سے باہر آیا اور بوڑھے کو بتایا کہ وہ حاتم ہے اور کہا کہ مجھے نوفل کے پاس لے چلو اور اس سے انعام لے لو بوڑھا اس بات پر راضی نہ ہوا حاتم نے بہت اسرار کیا پر بوڑھا نہ مانا اسی بحث و تکرار میں وہاں لوگ جمع ہوگئے حاتم کو پہچان لیا اور پکڑ کر نوفل کے پاس لے گئے بوڑھا بھی افسوس کرتا ہوا پیچھے چل دیا
نوفل کے دربار پہنچ کر ہر شخص دعویٰ کرنے لگا کہ حاتم کو اس نے پکڑا ہے جب نوفل کوئی فیصلہ نہ کر پایا کہ حاتم کو کس نے پکڑا ہے تو خود حاتم نے نوفل سے کہا کہ وہ جو بوڑھا پیچھے کھڑا ہے وہ مجھے یہاں لایا ہے اور اب تم اپنا وعدہ پورا کرو اور اسے انعام دو نوفل نے بوڑھے سے حقیقت پوچھی تو اس نے سب سچ بتا دیا کہ کیسے حاتم اس کی مدد کرنے کے لئے خود ہی چلا آیا ہے
نوفل کو یہ سن کر بہت حیرت ہوئی کہ کیسا خدا ترس انسان ہے جو محتاجوں کی خاطر اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کرتا ایسے خدا کے بندے سے کیسی دشمنی کرنا یہ سوچ کر نوفل نے حاتم کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا اس کا مال و دولت اس کے حوالے کردیا جھوٹے دعوے داروں کو سزا دلوائی اور بوڑھے کو انعام کی اشرفیاں دیں وہ دعا دیتا ہوا چلا گیا
درویش یعنی بادشاہ نے جب حاتم کا یہ قصہ سنا تو اس کے دل میں بھی سخی بننے اور شہرت کمانے کا خیال پیدا ہوا اس نے چالیس دروازوں والا ایک عالیشان مکان تعمیر کروایا اور ہر دروازے سے صبح سے شام تک غریبوں کو اشرفیاں بانٹنے کا سلسلہ شروع کیا
ایک روز ایک عجیب فقیر آیا پہلے دروازے سے آکر اس نے ایک اشرفی مانگی دوسرے دروازے سے دو تیسرے سے تین اور اسی طرح وہ ہر دروازے سے آتا جاتا اور ایک اشرفی بڑھاتا جاتا چالیسویں دروازے سے اس نے چالیس اشرفیاں مانگیں بادشاہ نے وہ بھی دلوادیں وہ پھر پلٹ کر پہلے دروازے سے دو بارہ آیا تو بادشاہ نے کہا کتنا لالچی ہے تو فقیری کا مطلب بھی جانتا ہے فقیر کو صرف آج کی فکر کرنی چاہیئے کل کا نہیں سوچنا چاہیئے یہ مال جمع کرنے کے لئے نہیں خرچ کرنے کے لئے ہے اب جا اور جب یہ خرچ ہوجائے تب آکر اور لینا
یہ سن کر فقیر کو غصہ آ گیا اور اس نے ساری اشرفیاں پھینک دیں اور کہا کہ تو بھی سخی ہونے کا مطلب نہیں جانتا یہ اپنی دولت رکھ اپنے پاس اور آئندہ کبھی سخی ہونے کا دعویٰ نہ کرنا سخی ہونا اتنا آسان نہیں ہے تو سخی ہونے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا اس دنیا میں اگر کوئی سخی ہے تو وہ بصرے کی شہزادی ہے جس پر خدا نے سخاوت ختم کردی ہے لیکن تو ہرگز سخی نہیں ہے
یہ سن کر بادشاہ نے اس سے معافی مانگی اور کہا کہ اسے جو چاہئیے وہ لے لے پر وہ فقیر یہ کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا کہ اب تو اپنی بادشاہت بھی مجھے دے تو میں نہ لو وہ تو چلا گیا پر بادشاہ کے دل میں بصرے کی شہزادی کی تعریف سن کر خواہش پیدا ہوگئی کہ بصرے جاکر اس سخی شہزادی کو دیکھنا چاہیئے