saurduacademy.com

Koi Din Ger Zindgani Or Hai Mirza Ghalib Ghazal

کوئی دن گر زندگانی اور ہے

 اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے

اس شعر میں غالب کہہ رہے ہیں کہ اگر ہماری زندگی کے ابھی کچھ دن اور باقی ہیں تو اب ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ جس طرح سے ہم اب تک اپنی زندگی گزارتے آئے ہیں دکھوں تکلیفوں اور مایوسیوں کے ساتھ اور ہم نے بہت درد و غم بھی اٹھائے ہیں تو اب ہم نے سوچ لیا ہے کہ ہم اپنی زندگی کے باقی دن الگ انداز سے گزاریں گے اب تک ہماری زندگی جیسی بھی گزری لیکن اب ہم نے دل میں یہ ارادہ کر لیا ہے کہ آنے والے دنوں میں ہم اپنی زندگی کو اس طرح نہیں گزاریں گے جیسے آج تک گزارتے آئے ہیں   

 آتشِ دوزخ میں یہ گرمی کہاں

سوزِ غم ہائے نہانی اور ہے

اس شعر میں درد کہہ رہے ہیں کہ دوزخ کی آگ کتنی ہی گرم کیوں نہ ہو کتنا ہی جلاتی ہو کتنی ہی تپش رکھتی ہو پر دوزخ کی آگ میں وہ جلن وہ گرمی نہیں ہو سکتی جو کہ اس دنیا اور اس زندگی کے غموں میں ہے اس دنیا کے دکھ درد تکلیفیں اور غم جو انسان کے دل میں چھپے ہوتے ہیں وہ زندگی بھر انسان کو جلاتے ہیں وہ ساری زندگی ان غموں کے ساتھ گزارتا ہے اور اندر ہی اندر غموں کی آگ میں جلتا رہتا ہے اور دل کے اندر چھپے ہوئے ان غموں کی آگ کی تپش اور جلن دوزخ کی آگ سے کئی زیادہ ہے 

 بارہا دیکھی ہیں ان کی رنجشیں

 پر کچھ اب کے سرگرانی اور ہے

اس شعر میں غالب کہہ رہے ہیں کہ ہم سے روٹھ جانا ناراض ہو جانا ہمارے محبوب کی عادت ہے کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ وہ ہم سے ناراض ہوتا ہے اور پھر ہمارے منانے سے وہ مان جاتا ہے اور اس کی ناراضگی ختم ہو جاتی ہے یہ روٹھنا اور منانا ہمیشہ ایسے ہی چلتا رہتا ہے پر اس بار لگتا ہے کہ بات کچھ اور ہے کچھ تو ہے جس کا اسے شدید غصہ ہے اس لئے وہ ایسا ناراض ہوا ہے کہ بہت کوششوں کے باوجود بھی نہیں مانا ہے اب کہ اس کی ناراضگی کی وجہ کچھ اور ہی لگتی ہے 

  دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر

 کچھ تو پیغامِ زبانی اور ہے

اس شعر میں غالب کہہ رہے ہیں ہمارے محبوب کا پیغام لانے والا ہمارے ہاتھ میں اس کا خط دے کر ہمارا منہ دیکھتا رہا لگتا تھا کہ وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ خط پڑھ کر ہمیں کیسا محسوس ہو رہا ہے ہمارے دل کی کیا کیفیت ہے ایسا لگتا تھا کہ وہ کچھ اور ہی جانتا ہے زبانی طور پر اسے کچھ اور بھی کہا گیا ہے جو کہ خط میں نہیں لکھا ہے اور جو کچھ بھی اسے کہا گیا ہے وہ یقیناً اسی بات کے مطابق ہماری کیفیت کی امید کررہا تھا پر شاید ہماری کیفیت ویسی نہیں تھی اس لئے وہ ہمارا منہ تک رہا تھا کیونکہ اس کے پاس تو زبانی طور پر پیغام ہی کچھ اور تھا

ہوچکیں غالب بلائیں سب تمام

ایک مرگِ ناگہانی اور ہے

اس شعر میں غالب کہہ رہے ہیں کہ ہم نے زندگی بھر بہت دکھ اٹھائے ہیں بہت تکلیفیں بہت غم دیکھے ہیں اور یہ درد و غم ہمیشہ ہماری زندگی کا حصہ رہے اور ہمیں کبھی سکھ نہیں ملا پر اب تو ہر مصیبت ہم پر ٹوٹ چکی ہے ہم سبھی کچھ سہہ چکے ہیں اب سب کچھ ختم ہو چکا ہے اور ہم پر ٹوٹنے کے لئے اب کوئی مصیبت باقی نہیں بچی ہے اب تو بس ایک موت ہی باقی رہ گئی ہے جو اچانک کسی بھی وقت ہم کو گھیر لے گی دکھ تو سب تمام ہوئے اب تو بس اچانک ایک  موت کا آنا ہی باقی رہ گیا ہے

Audio clip

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top