saurduacademy.com

Zewar Ka Dabba Khulasa 1st year Urdu

اس کہانی کا مرکزی کردار چندر پرکاش ہے جو کہ بے اے پاس تھا تعلیم مکمل ہونے کے بعد اسے اپنے والد کے ذریعے اچھی نوکری ملنے کی امید تھی مگر والد کی اچانک موت سے پرکاش کی امید ٹوٹ گئی اور اسے ٹھاکر صاحب کے بیٹے کو ٹیوشن پڑھانے کی نوکری کرنی پڑیپرکاش اور اس کی بیوی چمپا دونوں ہی اس نوکری سے خوش نہیں تھے لیکن ٹھاکر صاحب نے انہیں اپنے گھر کے ساتھ ایک اچھا سا گھر رہنے کے لئے دیا تھا اسی لئے وہ تھوڑے مطمئن تھے کہ نوکری کے ساتھ انہیں رہنے کے لئے گھر بھی مل گیاٹھاکر اور ٹھکرائن دونوں پرکاش کی بہت عزت کرتے تھے اور اسے اپنے بیٹے کی طرح سمجھتے تھے ٹھاکر صاحب کا بیٹا ویراندر پرکاش ہی کی عمر کا تھ

پرکاش اور اس کی بیوی چمپا دونوں ہی اس نوکری سے خوش نہیں تھے لیکن ٹھاکر صاحب نے انہیں اپنے گھر کے ساتھ ایک اچھا سا گھر رہنے کے لئے دیا تھا اسی لئے وہ تھوڑے مطمئن تھے کہ نوکری کے ساتھ انہیں رہنے کے لئے گھر بھی مل گیاٹھاکر اور ٹھکرائن دونوں پرکاش کی بہت عزت کرتے تھے اور اسے اپنے بیٹے کی طرح سمجھتے تھے ٹھاکر صاحب کا بیٹا ویراندر پرکاش ہی کی عمر کا تھا پر کند ذہن ہونے کی وجہ سے اب تک نویں جماعت میں پڑھتا تھا

ٹھاکر اور ٹھکرائن دونوں پرکاش کی بہت عزت کرتے تھے اور اسے اپنے بیٹے کی طرح سمجھتے تھے ٹھاکر صاحب کا بیٹا ویراندر پرکاش ہی کی عمر کا تھا پر کند ذہن ہونے کی وجہ سے اب تک نویں جماعت میں پڑھتا تھا

ایک روز ٹھکرائن نے پرکاش سے کہا بیٹا سوچتی ہوں ویرو کی شادی کر دوں اس کی عمر ہوگئی ہے لڑکا ہے کہیں بہک نہ جائے ایک اچھا رشتہ آیا ہے تم کیا کہتے ہو تو پرکاش نے کہا کہ ویراندر سے پوچھ لیں اور جیسا آپ مناسب سمجھیں تو ٹھکرائن نے کہا پر بیٹا شادی کی ساری ذمہ داری تمھیں سنبھالنی ہوگی پرکاش نے انہیں تسلی دی کے وہ سب سنبھال لے گا رشتہ پکا ہوگیا اور شادی کی تیاریاں شروع ہوگئیں

ٹھاکر صاحب کو پرکاش پہ بہت بھروسہ تھا اسی لئے انہوں نے شادی کی ساری ذمہ داری پرکاش کو دی تھی پرکاش سارا دن تیاریوں میں مصروف رہتا اور حساب کتاب میں لگا رہتا دس بارہ ہزار روپے خرچ کرنے کا اختیار کوئی چھوٹی بات نہیں تھی پرکاش چاہتا تو دو چار سو روپے آسانی سے اڑا سکتا تھا پر وہ ایسا ہرگز نہیں تھا کہ جنہوں نے اس پر اتنا بھروسہ کیا انہیں دھوکہ دے پر جس دن پرکاش نے زیورات خریدے اس کا دل عجیب ہوگیا

اس نے گھر آکر اپنی بیوی سے کہا ہم یہاں روٹیوں کے محتاج ہیں اور دنیا میں لوگ ہزاروں لاکھوں روپے کے زیور بنواتے ہیں ٹھاکر صاحب نے بہو کے لئے پانچ ہزار کے زیور بنوائے ہیں ایسے زیور میں نے آج تک نہیں دیکھے مزے میں تو یہ لوگ رہتے ہیں جن کے باپ دادا چھوڑ گئے ہیں چمپا نے کہا ہماری گزر بسر تو ہو رہی ہے نہ یہی بہت ہے پرکاش بار بار زیور کا ذکر کرتا رہا تو چمپا نے کہا کہ وہ اب زیور کی بات نہ کرے

رات کے بارہ بج گئے پرکاش کو نیند نہ آئی جب آنکھ بند کرتا اس کی آنکھوں کے سامنے وہ زیور آجاتے وہ اچانک اٹھا اور اپنی چھت سے آہستہ سے ٹھاکر صاحب کی چھت پر اتر گیا گھر میں بلکل سناٹا تھا اس نے زیور کا ڈبہ چرا لیا صبح چمپا نے اسے جگا کر کہا سنو ٹھاکر صاحب کے گھر چوری ہوئی ہے چور زیور کا ڈبہ لے گئے ہیں جاکر انہیں تسلی دو

پرکاش ٹھاکر صاحب کے گھر پہنچا تو ٹھکرائن بہت رو رہی تھی پرکاش نے کہا بڑا غضب ہوگیا ماتا جی مجھے چمپا نے ابھی بتایا ٹھاکر صاحب سر پکڑ کر بولے دروازہ نہیں کھلا کوئی تالا نہیں ٹوٹا آخر چور آیا کدھر سے پرکاش نے کہا مجھے تو کسی نوکر کی حرکت لگتی ہے تو ٹھکرائن نے کہا کہ ان کے نوکر پرانے اور وفا دار ہیں ہزاروں روپے پڑے رہتے ہیں پر نوکر کبھی ہاتھ نہیں لگاتے

ٹھاکر صاحب نے کہا کہ انسان کی نیت بدلتے دیر نہیں لگتی میں پولیس کو بلاتا ہوں وہی ان سے پوچھے گی پولیس کے نام سے پرکاش ڈر گیا کہ ایسا نہ ہو اس کے گھر کی بھی تلاشی ہو اس نے کہا کہ پولیس کو بتانا بے کار ہے میں ہی ان سے پوچھتا ہوں کہ کس کی حرکت ہے جس پر ٹھکرائن پھر بولی کے نوکر ایسا نہیں کرسکتے کوئی باہر ہی سے آیا تھا

Audio clip

ٹھاکر صاحب نے پرکاش سے کہا کہ اپنی چھت دیکھو کوئی وہاں سے تو نہیں آیا پرکاش ڈر گیا اور بولا کہ میں تو دس بجے دروازہ بند کر لیتا ہوں پر کوئی پہلے سے چھپ گیا ہو تو الگ بات ہے رات میں دیوار سے پرکاش کے پاؤں پر چونا لگ گیا تھا جس کا نشان چھت پر موجود تھا اور ویسا ہی نشان ٹھاکر صاحب کی چھت پر بھی تھا اب تو انہیں یقین ہوگیا کہ چور پرکاش ہی کے گھر سے آیا تھا

پرکاش نے کہا کہ چوری اس کی غفلت کی وجہ سے ہوئی ہے اس کا دروازہ دن بھر کھلا رہتا ہے چور کسی وقت آکر چھپ گیا ہوگا اور اب چور نے راستہ دیکھ لیا ہے پھر دوبارہ بھی آسکتا ہے اس لئے وہ یہ گھر چھوڑ رہا ہے اور ٹھاکر صاحب کے منع کرنے کے باوجود بھی اس نے اسی دن گھر چھوڑ دیا کیوں کہ اب اسے وہاں رہنے میں خطرہ لگ رہا تھا جب تک شادی کی دھوم دھام رہی وہ سارا دن اکثر ٹھاکر صاحب کے گھر ہی گزارتے تھے

پرکاش کے سارے صندوق اور الماری کی چابیاں چمپا کے پاس تھیں پر اب ایک ایسا صندوق بھی تھا جس کی چابی چمپا کے پاس نہیں تھی اس نے پرکاش سے اس صندوق کے بارے میں پوچھا تو اس نے یہ کہہ کر چمپا کو ٹال دیا کہ اس میں پرانی کتابیں ہیں پرکاش روز صندوق کھول کر دیکھتا پر جیسے ہی چمپا آتی تو بند کر دیتا چمپا کو کچھ شک سا ہونے لگا

ایک دن ایک پرانی چابیاں بیچنے والے سے چمپا نے ایک پرانی چابی خرید کر صندوق کھولا تو اس میں زیور دیکھ کر پریشان ہوگئی اسے شک ہوا کہ کہیں یہ ٹھاکر صاحب کے زیور تو نہیں کیوں کہ سب وہی چیزیں تھیں جس کا پرکاش نے اس کے سامنے ذکر کیا تھا اس کا سر شرم سے جھک گیا اس نے صندوق بند کر دیا اور سوچنے لگی کہ اس کے شوہر کا ضمیر اتنا کم زور کیسے ہوگیا چمپا اب اداس رہنے لگی اور دونوں میاں بیوی میں اب اکثر جھگڑے رہنے لگے

کئی مہینے گزر گئے شہر کے ایک بینک میں اسسٹنٹ منیجر کی جگہ خالی ہوئی پرکاش نے اکاؤنٹنٹ کا امتحان پاس کیا ہوا تھا لیکن اس نوکری کی شرط تھی کے ضمانت کے پیسے جمع کرانے تھے ٹھاکر صاحب نے پرکاش کو کہا کہ تم درخواست کیوں نہیں دیتے تو پرکاش نے کہا ضمانت کے دس ہزار روپے دینے ہیں میرے پاس پیسے کہاں ہیں تو ٹھاکر صاحب نے کہا تم درخواست دو ضمانت کے پیسے میں دوں گا پرکاش خوش ہوگیا کہ اب وہ نوکری اسے ہی ملے گی اسے ٹھاکر صاحب کی صاف دلی دیکھ کر صدمہ بھی ہورہا تھا

وہ گھر پہنچا اور خوشی خوشی چمپا کو نوکری کا بتایا تو اس نے منہ پھیر کر کہا کہ تم نے ٹھاکر صاحب سے ضمانت کیوں دلوائی آدمی کی نیت تو ہمیشہ ایک سی نہیں رہتی پرکاش ڈر گیا اور سوچا کہ چمپا کو زیور کا تو نہیں پتہ چل گیا اس نے کہا کہ تم نے یہ کیوں بولا کہ نیت ہمیشہ ایک سی نہیں رہتی تو چمپا نے کہا ٹھاکر صاحب کے ہاں شادی میں تم اپنی نیت ٹھیک نہ رکھ سکے خود ہی وہ گھر چھوڑ دیا

ٹھاکر صاحب ہمیں کرایہ دیتے ہیں ہر چیز بھیجتے ہیں ہماری دکھ بیماری میں ہمارا خیال کرتے ہیں ہمیں اتنی عزت دیتے ہیں اور نوکری کی ضمانت تو کوئی رشتے دار بھی نہ دیتا اتنا احسان کرنے والے کے لئے تو جان بھی قربان کرنے کو تیار رہنا چاہیئے پرکاش کا ضمیر اسے ملامت کرنے لگا اسے وہ صندوق بوجھ لگنے لگا

پرکاش نے نوکری کی خوشی میں اپنے گھر دعوت رکھی ٹھاکر صاحب کے گھر کے سب لوگ آئے کھانا کھا کر ٹھاکر صاحب جانے لگے تو پرکاش نے انہیں روک لیا کہ وہ سب رات اس کے گھر ہی رک جائیں رات میں سب سوگئے تو پرکاش خاموشی سے ٹھاکر صاحب کے گھر گیا اور زیور کا ڈبہ ان کے پلنگ کے نیچے رکھ آیا اسے لگا کہ جیسے کوئی بوجھ اتر گیا ہو

صبح ٹھاکر صاحب اپنے گھر چلے گئے پرکاش شام کا انتظار کرنے لگاشام کو وہ ویراندر کو پڑھانے گیا تو ویراندر نے اسے کہا کہ آپ کی دعوت بہت مبارک تھی زیور جو چوری ہوئے تھے مل گئے ہیں اس میں سے کچھ بھی غائب نہیں ہے گھر میں سب بہت خوش تھے ٹھاکر صاحب نے پرکاش سے کہا کہ آج اس خوشی میں ہمارے گھر دعوت ہوگی 

پرکاش نے گھر آکر چمپا کو یہ خوش خبری سنائی تو وہ رونے لگی جیسے اس کا بچھڑا ہوا شوہر بہت مدت کے بعد گھر آگیا ہو

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top