اس کہانی کا مرکزی کردار ایک شوہر ہے جو کہ بیمار تھا اور اس کی بیوی نے معائنے کے لئے ڈاکٹر کو گھر بلایا ہوا تھا معائنے کے بعد ڈاکٹر نے کہا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے انہیں کوئی بیماری نہیں بس تھکن کی وجہ سے تھوڑی حرارت ہے جس پر بیوی نے کہا تھکن تو ہوگی یہ دفتر میں بہت کام کرتے ہیں بہت دیر سے گھر آتے ہیں آرام بھی نہیں کرتے ڈاکٹر نے کہا کہ انہیں دوا کی نہیں بس آرام و سکون کی ضرورت ہے آپ اس بات کا خیال رکھیں کہ ان کے کمرے میں بالکل بھی شور نہ ہو
ڈاکٹر کے جاتے ہی بیوی نے کہا دیکھو ڈاکٹر نے تمھیں آرام و سکون کا کہا ہے نہ تم کسی سے بات کرو نہ کوئی تم سے بات کرے بس چپ ہو کر لیٹے رہو بلکہ تم سو جاؤ میں گھنٹی رکھ جاتی ہوں ضرورت ہو تو گھنٹی بجا کر بلا لینا اتنا کہہ کر وہ گھنٹی ڈھونڈنے لگی جو اس نے رات میں میز پر رکھی تھی پر اب غائب تھی
وہ گھنٹی ڈھونڈ ہی رہی تھی کہ زور سے دروازے کی کنڈی بجی دروازے پر پانی والا تھا وہ کمرے ہی سے پانی والے پر چلائی کہ گھر میں سب بہرے ہیں کیا جو اتنی زور سے کنڈی بجا رہا ہے ہمیشہ بے وقت آتا ہے کچھ خیال ہی نہیں ہے گھر میں کوئی بیمار ہے اور ڈاکٹر نے شور کرنے سے منع کیا ہے اب جا اور کل سے وقت پر آنا اتنے میں اس کو اوپر گھنٹی رکھی نظر آئی اب وہ ملازم کا نام لے کر غصہ کرنے لگی کہ یقیناً گھنٹی اسی نے یہاں رکھی ہوگی جس پر شوہر نے کہا کہ رات میں منا بار بار گھنٹی بجا رہا تھا میرا دل گھبرا رہا تھا تو میں نے لے کر یہاں رکھ دی تھی
اتنے میں ملازم آیا اور کہا بیگم صاحبہ آپ نے بلایا ہے کیا اب وہ ملازم پر چیخنے لگی کب سے بلا رہی تھی تجھے کہاں مر گیا تھا تو ملازم نے کہا آپ نے ریٹھے کوٹنے کو کہا تھا تو گودام میں ریٹھے ڈھونڈ رہا تھا تو وہ بولی ہاں تو اب جا اور ڈھونڈ ریٹھے
پھر وہ شوہر کو مخاطب کرتے ہوئے بولی سنو میں گھنٹی تمھارے سرہانے رکھے جا رہی ہوں کوئی کام ہو تو گھنٹی بجا کر بلا لینا اور ہاں یہ بتاؤ کھانا کیا کھاؤ گے وہ یہ پوچھ ہی رہی تھی کہ بچہ صحن میں گاڑی چلانے لگا وہ زور سے چلائی ابا بیمار پڑے ہیں ڈاکٹر نے شور کرنے سے منع کیا ہے پر اس کو خیال ہی نہیں ہے اچانک گاڑی کی آواز تیز ہوگئی تو بیوی چیختی چلاتی بچے کی خبر لینے کے لئے کمرے سے چلی گئی
ابھی شوہر آنکھ بند کرکے سکون سے لیٹا ہی تھا کہ کمرے سے جھاڑو کی آواز آنے لگی دیکھا تو نوکر جھاڑو لگا رہا تھا شوہر نے منع کیا تو نوکر بولا اگر میں نے یہاں کی جھاڑو نہ لگائی تو بیگم صاحبہ ناراض ہوں گی شوہر نے ڈانٹ کر اسے بھگا دیا
اس نے دوبارہ آنکھیں بند ہی کی تھیں کہ فون کی گھنٹی بجنے لگی اس نے بہت مشکل سے اُٹھ کر فون اٹھایا یہ اس کی بیوی کی کسی جاننے والی کا فون تھا اس نے بولا میں بیمار ہوں کسی کو بلا نہیں سکتا اور یہ کہہ کر فون رکھ دیا
اتنے میں بیوی کمرے میں داخل ہوئی اور اس کو کھڑا دیکھ کر بولی ارے تم اُٹھ کیوں گئے مجھے بلا لیتے شوہر نے کہا تمھارا فون تھا بیوی نے کہا کس کا تھا تو شوہر نے کہا پتہ نہیں تو بیوی بولی کہ جب اُٹھ ہی گئے تھے تو نام ہی پوچھ لیتے پتہ نہیں کون تھی کیوں فون کیا تھا شوہر نے کہا جو بھی تھیں اگر کوئی ضروری کام ہوتا تو مجھے بتا دیتیں
اچانک سے پڑوس کے لڑکے کی گانے کی آواز آنے لگی شوہر نے کہا خدا کے لئے اس سے بولو گانا بند کر دے ایک دن نہیں گائے گا تو دنیا کسی نعمت سے محروم نہیں ہو جائے گی بیوی نے کہا وہ برا نہ مان جائے تو شوہر بولا پرچہ لکھ کر بھیج دو کہ میں بیمار ہوں ڈاکٹر نے مجھے آرام وسکون کا کہا ہے بیوی پرچہ لکھنے لگی
اچانک منا گر گیا اور اس کے خون نکل گیا وہ زور زور سے رونے لگا بیوی پرچہ لکھتے لکھتے منے پر چلانے لگی خون نکل گیا تو کون سی قیامت آگئی آرہی ہوں پرچہ لکھ کے باہر سے فقیر کے مانگنے کی صدائیں آنے لگیں ملازم نے ہاون دستے میں ریٹھے کوٹنے شروع کر دیئے
بے سرے گانے کی آواز بچے کا رونا فقیر کی صدائیں اور ریٹھے کوٹنے کی آواز کے ساتھ بیوی کی صدائیں کہ ریٹھے بعد میں کوٹ لینا پہلے اس فقیر کو تو رخصت کر شوہر گھبراتے ہوئے اٹھ بیٹھا اور کہا میری شیروانی اور ٹوپی دینا دفتر جا رہا ہوں بیوی نے پوچھا کیوں تو شوہر نے کہا آرام و سکون کے لئے