حسناں اس کہانی کا مرکزی کردار ہے وہ اپنی پڑوسن رکھی کے ساتھ مل کر جو کہ اس کی اچھی سہیلی بھی تھی اپنی بہو کے گھر آنے کی تیاری کر رہی تھی جو کہ بیٹے کی پیدائش کے بعد میکے سے واپس آرہی تھی حسناں نے ماں اور بچے کی ضرورت کا تمام سامان منگوا لیا تھا تاکہ اس کی بہو اور پوتے کو کسی بھی قسم کی تکلیف نہ ہو
حسناں کا شوہر عباس اپنی بہو اور پوتے کو لینے اسٹیشن گیا ہوا تھا محلے کی ایک چھوٹی بچی صغریٰ بچے کو دیکھنے کے شوق میں بار بار بچے کا پوچھنے آرہی تھی کہ ابھی تک آیا یا نہیں سب ہی بے صبری سے بچے کے آنے کا انتظار کر رہے تھے
حسناں کا جوان شادی شدہ بیٹا بیماری سے مر چکا تھا اور حسناں کا دل یہ سوچ کر غم زدہ تھا کہ اس کا بیٹا زندہ ہوتا تو کتنا خوش ہوتا کہ اس کی بیوی اس کے بچے کو لے کر میکے سے واپس آرہی ہے پر وہ تو دنیا میں ہے ہی نہیں حسناں نے روتے ہوئے کہا کہ شاید اللّٰہ کو یہی منظور تھا
رکھی نے حسناں کو سمجھایا کہ وہ غم زدہ نہ ہو اس کا پوتا بڑا ہوگا تو وہ اس میں اپنے بیٹے کو دیکھے گی اور اس کا دل بہل جائے گا بس یہی زندگی ہے ہوتا وہی ہے جو اللّٰہ کو منظور ہو اور جو بھی ہو جائے انسان کو جینا تو پڑتا ہی ہے
حسناں نے کہا رکھی ماں کا دل بالکل گہرے سمندر کی طرح ہوتا ہے پتا نہیں کتنے دکھ اس میں ڈوبے ہوتے ہیں جو کسی کو دکھائی نہیں دیتے اور ان ہی دکھوں کے ساتھ ماؤں کو جینا پڑتا ہے
عباس کو اسٹیشن گئے کافی دیر ہوگئی تھی حسناں کے دل میں عجیب عجیب خیالات پیدا ہونے لگے کہ اب تو بہت زیادہ دیر ہوگئی ہے اب تک اس کی بہو کیوں نہیں آئی رکھی اسے سمجھانے لگی کہ دیکھو گاڑی کو دیر سویر ہو جاتی ہے ہو سکتا ہے گاڑی وقت پر نہ آئی ہو
رکھی حسناں کو سمجھا ہی رہی تھی کہ اتنے میں رکھی کا بیٹا شبیر آیا اور بتایا کہ جس ٹرین سے ان کی بہو اور پوتا آرہے تھے اس کی ٹکر ہوگئی ہے حسناں نے یہ سن کر رونا شروع کردیا اور دعا کرنے لگی کہ میری بہو اس ٹرین سے نہ آئی ہو
رکھی نے حسناں کو تسلی دی کہ دیکھو بہو کے بھائی نے خط میں لکھا تھا کہ ان کی رشتے کی خالہ بہو کے ساتھ آئیں گی اور اگر خالہ ساتھ جانے کو تیار نہ ہوئیں تو اگلے ماہ میں خود چھوڑ جاؤں گا تو ہوسکتا ہے خالہ تیار نہ ہوئی ہوں اس لئے بہو نہ آئی ہو
تھوڑی ہی دیر میں عباس گھر آگیا اس نے بتایا کہ بہت اچھی طرح ہر ڈبہ دیکھا ہے پر بہو اس ٹرین سے نہیں آئی حسناں نے اللّٰہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا اور صغریٰ کو کہا کہ بیٹی محلے کے بچوں کو بلا کر لاؤ مہمانوں کے لئے مٹھائی منگوائی تھی بچوں میں بانٹ دیتی ہوں یہ کہہ کر حسناں باورچی خانے میں چلی گئی
صغریٰ بچوں کو بلانے گئی اور تھوڑی ہی دیر میں ہاتھ میں ایک خط لئے واپس آئی عباس نے اس سے خط لے کر پڑھا تو اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا یہ اس کی بہو کا خط تھا جس میں لکھا تھا کہ ان کا پوتا مر گیا ہے رکھی اور عباس خط پڑھ کر صدمے میں آگئے
اور حسناں اس بات سے بے خبر کہ اس کا پوتا مر گیا ہے بچوں میں مٹھائی بانٹنے کی تیاری کر رہی تھی اور ایک اور پہاڑ جیسا غم اس کے دل کے سمندر میں ڈوبنے کو تیار تھا
-
Hasti He Jub Tak Hum Hain Isi Izteraab Main khuwaja Mir Dard Ghazal Tashreeh
-
Zewar Ka Dabba Khulasa 1st year Urdu
-
Koi Din Ger Zindgani Or Hai Mirza Ghalib Ghazal
-
Madrasa Ya dair Tha Khuwaja Mir Dard Ghazal Tashreeh
-
Aram O Sukoon Khulasa Urdu
-
Samander Ka Dil Khulasa Urdu
-
Sair Doosre Darwaish Ki Khulasa
-
Boorhi Kaaki Khulasa Class 9th.
-
Boorhi kaaki khulasa