saurduacademy.com

Sair Doosre Darwaish Ki Khulasa

پہلا درویش اپنی کہانی سنا چکا تو دوسرے درویش نے باقی درویشوں کو مخاطب کر کے اپنی کہانی شروع کی اس نے کہا کہ وہ ملک فارس کا بادشاہ زادہ ہے مختلف امور کے ماہر اور قابل لوگ فارس میں بستے ہیں اور اس کی تربیت بھی اس کے والد نے اس طرح سے کی ہے کہ وہ چودہ برس کی عمر میں ان تمام علوم کا ماہر ہو چکا تھا جو بادشاہ بننے کے لئے ضروری ہوتے ہیں

اس کا ایک شوق تھا کہ وہ نصیحت حاصل کرنے کے لئے قابل لوگوں سے بادشاہوں اور نامور لوگوں کے قصے سنا کرتا تھا ایک روز ایک عقلمند ساتھی نے حاتم کی کہانی سنائی کہ حاتم کے وقت میں عرب کا ایک بادشاہ نوفل حاتم کی شہرت کی وجہ سے اس کا دشمن ہوگیا ایک روز اس نے حاتم پر حملے کے لئے لشکر تیار کیا حاتم کو جب یہ خبر ہوئی تو اس نے سوچا کہ میں اگر حملے کا جواب دوں گا تو بہت خون خرابہ ہوگا معصوم لوگ مارے جائیں گے اور سارا گناہ مجھ پر ہوگا یہ سوچ کر وہ سب کچھ چھوڑ کر وہاں سے نکل گیا اور ایک غار میں جا کے چھپ گیا

نوفل کو جب حاتم کے غائب ہونے کی خبر ہوئی تو وہ غصے میں آگیا اس نے حاتم کے مال و دولت پر قبضہ کر لیا اور یہ اعلان کروادیا کہ جو کوئی حاتم کو تلاش کرے گا اسے پانچ سو اشرفیاں انعام میں دی جائیں گی لوگ لالچ میں حاتم کو تلاش کرنے لگے

ایک روز ایک بوڑھا اور اس کے بیوی بچے لکڑیاں کاٹنے اس غار کے پاس پہنچے جہاں حاتم چھپا تھا لکڑیاں چنتے ہوئے بڑھیا نے کہا کاش ہمیں حاتم مل جائے تو اس کو نوفل کے حوالے کرکے انعام مل جائے تو ہماری زندگی آسان ہوجائے بوڑھا اس بات پر ناراض ہوا اور اپنی بیوی کو ڈانٹنے لگا

حاتم غار میں ان دونوں کی باتیں سن رہا تھا اس نے سوچا کیا کرنا ایسی زندگی کا جو کسی غریب کے کام نہ آسکے یہ سوچ کر وہ غار سے باہر آیا اور بوڑھے کو بتایا کہ وہ حاتم ہے اور کہا کہ مجھے نوفل کے پاس لے چلو اور اس سے انعام لے لو بوڑھا اس بات پر راضی نہ ہوا حاتم نے بہت اسرار کیا پر بوڑھا نہ مانا اسی بحث و تکرار میں وہاں لوگ جمع ہوگئے حاتم کو پہچان لیا اور پکڑ کر نوفل کے پاس لے گئے بوڑھا بھی افسوس کرتا ہوا پیچھے چل دیا

نوفل کے دربار پہنچ کر ہر شخص دعویٰ کرنے لگا کہ حاتم کو اس نے پکڑا ہے جب نوفل کوئی فیصلہ نہ کر پایا کہ حاتم کو کس نے پکڑا ہے تو خود حاتم نے نوفل سے کہا کہ وہ جو بوڑھا پیچھے کھڑا ہے وہ مجھے یہاں لایا ہے اور اب تم اپنا وعدہ پورا کرو اور اسے انعام دو نوفل نے بوڑھے سے حقیقت پوچھی تو اس نے سب سچ بتا دیا کہ کیسے حاتم اس کی مدد کرنے کے لئے خود ہی چلا آیا ہے

Audio Clip

نوفل کو یہ سن کر بہت حیرت ہوئی کہ کیسا خدا ترس انسان ہے جو محتاجوں کی خاطر اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کرتا ایسے خدا کے بندے سے کیسی دشمنی کرنا یہ سوچ کر نوفل نے حاتم کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا اس کا مال و دولت اس کے حوالے کردیا جھوٹے دعوے داروں کو سزا دلوائی اور بوڑھے کو انعام کی اشرفیاں دیں وہ دعا دیتا ہوا چلا گیا

درویش یعنی بادشاہ نے جب حاتم کا یہ قصہ سنا تو اس کے دل میں بھی سخی بننے اور شہرت کمانے کا خیال پیدا ہوا اس نے چالیس دروازوں والا ایک عالیشان مکان تعمیر کروایا اور ہر دروازے سے صبح سے شام تک غریبوں کو اشرفیاں بانٹنے کا سلسلہ شروع کیا

ایک روز ایک عجیب فقیر آیا پہلے دروازے سے آکر اس نے ایک اشرفی مانگی دوسرے دروازے سے دو تیسرے سے تین اور اسی طرح وہ ہر دروازے سے آتا جاتا اور ایک اشرفی بڑھاتا جاتا چالیسویں دروازے سے اس نے چالیس اشرفیاں مانگیں بادشاہ نے وہ بھی دلوادیں وہ پھر پلٹ کر پہلے دروازے سے دو بارہ آیا تو بادشاہ نے کہا کتنا لالچی ہے تو فقیری کا مطلب بھی جانتا ہے فقیر کو صرف آج کی فکر کرنی چاہیئے کل کا نہیں سوچنا چاہیئے یہ مال جمع کرنے کے لئے نہیں خرچ کرنے کے لئے ہے اب جا اور جب یہ خرچ ہوجائے تب آکر اور لینا

یہ سن کر فقیر کو غصہ آ گیا اور اس نے ساری اشرفیاں پھینک دیں اور کہا کہ تو بھی سخی ہونے کا مطلب نہیں جانتا یہ اپنی دولت رکھ اپنے پاس اور آئندہ کبھی سخی ہونے کا دعویٰ نہ کرنا سخی ہونا اتنا آسان نہیں ہے تو سخی ہونے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا اس دنیا میں اگر کوئی سخی ہے تو وہ بصرے کی شہزادی ہے جس پر خدا نے سخاوت ختم کردی ہے لیکن تو ہرگز سخی نہیں ہے

یہ سن کر بادشاہ نے اس سے معافی مانگی اور کہا کہ اسے جو چاہئیے وہ لے لے پر وہ فقیر یہ کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا کہ اب تو اپنی بادشاہت بھی مجھے دے تو میں نہ لو وہ تو چلا گیا پر بادشاہ کے دل میں بصرے کی شہزادی کی تعریف سن کر خواہش پیدا ہوگئی کہ بصرے جاکر اس سخی شہزادی کو دیکھنا چاہیئے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top